نو
آبادیاتی نظام
”اگر مستقبل کو
بدلنا چاہتے ہو تاریخ کا مطالعہ کرو۔“
(چینی فلاسفر)
تاریخی
کتابیں کھنگالنے، ان کے مطالعہ سے ہمیں قوموں کے عروج و زوال، مکاریوں اور سازشوں
کا پتا چلتا ہے۔
ہم
نے کبھی تاریخ سے کچھ سیکھا ہی نہیں، تاریخ سے ہمیں سیکھنا چاہئے………… تاریخ ہمیں
بہت کچھ سکھاتی ہے۔ آیئے ہم نو آبادیاتی سسٹم کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
نوآبادیاتی
نظام سے مراد ہے کہ یورپی اقوام نے افریقہ اور ایشیا پر حکمرانی کرتے ہوئے جو نظام
ِحکومت رائج کیا، اسے نو آبادیاتی نظام کہتے ہیں۔
نوآبادیاتی
نظام کا مقصد اپنے مفادات کی حفاظت اور معیشت کا فروغ ہوتا تھا۔ ہندوستان میں
نوآبادیاتی نظام کی ابتدا 1498ء کے بعد ہوئی جب واسگوڈے گاما (مشہور سیاح)راس امید
سے گھوم کر مشرقی افریقہ پہنچا۔ وہاں سے عرب جہازران کی مدد حاصل کر کے واسگوڈے
گاما جنوبی بندر گاہ سے کالی کٹ پہنچا۔ کالی کٹ کے راجا نے ان کی خوب خاطر دراری کی
…… تجارت کے لئے خاص مراعات دیں۔ پھر رفتہ رفتہ پرتگالیوں نے کالی کٹ آکر رہنا
شروع کر دیا۔ پرتگالیوں نے جب دیکھا کہ مقامی حکمرانوں میں نفاق ہے تو پرتگالیوں
نے گو (بھارت) اور اس کے گرد و نواح پر قبضہ جما لیا، اسی لئے تو کہتے ہیں ”گھر کا
بھیدی لنکا ڈھائے“ پرتگالیوں کی دیکھا دیکھی فرانسیسی، ہسپانوی، ولندیزی اور انگریزوں
نے بھی قدم اکھاڑے میں رکھے۔ ان اقوام نے برصغیر سے تجارت شروع کی۔ان میں انگریز
اور فرانسیسی قابل ِذکر ہیں۔ انگریزوں نے فرانسیسیوں کی زیادہ چلنے نہ دی۔ انگریز
قوم نے فرانسیسیوں کو برصغیر سے نکال دیا۔ اس طرح انگریز قوم برصغیر کی تجارت میں
سب سے آگے نکل گئے اور تجارت میں آنے والی دوسری اقوام کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا۔
1600ء میں برطانوی ملکہ الزبتھ نے مغل بادشاہ شاہ جہاں اور جہانگیر سے قانونی
اجازت نامہ حاصل کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد برصغیر سے تجارت
کرنا تھا مگر انتظامی اور تعلیمی زوال کے سبب انگریزوں نے ان سیاسی حالات کا
بھرپور فائدہ اٹھایا۔ رفتہ رفتہ انگریزوں نے بھی پرتگالیوں کی طرح مقامی آبادی کو
لوٹا۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں انگریز اپنے اقتدار کو تیزی
سے بڑھانے لگے۔ یہیں سے برصغیر میں نوآبادیاتی نظام میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جنگِ
پلاسی میں انگریزوں نے اپنے اقتدار کو تیزی سے بڑھانے کے لئے میر جعفر کو اپنے
ساتھ ملا کر بنگال کے حکمران (نواب سراج الدولہ) کو شکست دی۔
پھر انگریزوں نے جنگِ بکسر میں بادشاہ شاہ عالم ثانی اور میر قاسم
کو شکست دی ا ور بنگال اَودھ پر قبضہ جما لیا۔
میسور ریاست کے حاکم حیدر علی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ٹیپو
سلطان نے اپنے والد کی طرح مرتے دم تک جواں مردی سے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔انگریزوں
نے مرہٹوں اور نظام آف حیدر آباد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔
1799میں ٹیپو سلطان میسور کی لڑائی "ہمارے
لئے مشعلِ راہ ہے ”گیدڑ کی سوسال کی زندگی
سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔“ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد میسور کے علاقے
پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا،بلکہ انگریزوں نے برصغیر کے مغربی علاقوں یعنی پنجاب
اور سرحد تک رسائی حاصل کرلی۔ جنگِ آزادی کے بعد برصغیر کے باشندوں نے انگریزوں
کوبرصغیر سے نکالنے کے لئے ایڑی کا زور لگایا لیکن ناکام رہے۔پھر برصغیر پر
انگریزوں کا راج قائم ہو گیا۔میں شہید ہو گئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کر دیا گیا۔
برصغیر کو حکومتِ برطانیہ کے سپرد کر دیا گیا۔
برصغیر میں حکومتِ برطانیہ کا نوآبادیاتی نظام 1947ء تک قائم رہا۔
14 اگست 1947ء کو برطانوی راج ختم ہو گیا۔ اس طرح آزاد ممالک (پاکستان اور بھارت)
دنیا کے نقشے پر اُبھرے مشہور ما ہرِ معاشیات آدم سمتھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو لوٹ
مار کرنے والی کمپنی قرار دیا۔
عظیم مؤرخ عرفان حبیب لکھتے ہیں کہ سترہویں صدی میں ہندوستان اور
یورپ میں زراعت و صنعت اور آرٹ و ثقافت پر تھی۔
نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ 1700ء کی دہائی میں ساؤتھ ایشیا صنعتی
ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820ء کی برطانیہ کے صنعت کار یہاں پر لوہا سازی کی
تربیت لینے آیا کرتے تھے۔ ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل
طور پر برطانیہ کے برابر تھی۔ آگے چل کر اور لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ہندوستان تہذیبی لحاظ سے بھی برطانیہ سے بہت آگے تھا۔ مثال کے طور پر جتنی کتابیں
صرف بنگال میں چھپتی تھیں اتنی پوری دنیا میں شائع نہیں ہوتی تھیں۔ ڈھاکہ کا شہر
اس قدر ترقی یافتہ تھاکہ اس کا مقابلہ لندن سے کیا جا سکتا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اتنی ترقی کیسے کر لی؟؟؟ جواب یہی ہے کہ ہندوستانیوں سے انگریزوں نے بے تحاشا ٹیکس وصول کیا، جس سے انگریز خود تو ترقی کے زینہ پر گامزن ہو گئے لیکن ہندوستان کو پسماندگی کی
جانب دھکیل دیا۔





